بانکے رام سے شیخ الحدیث بننے والا ستارہ غروب ہوگیا ۔

بانکے رام سے شیخ الحدیث بننے والا ستارہ غروب ہوگیا ۔
میں عید کے لئے گھر والوں کے ساتھ ہلکی سی شاپنگ میں تھا ،چلتے چلتے واٹس ایپ چیک کیا تو آسمان حدیث کا ایک ستارے کی ٹوٹ جانے کی خبر بڑی تیزی سے گروپس میں پھیل رہی تھی ۔ایسا لگا کہ آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا ہے ۔جہاں کھڑا تھا وہیں کھڑا رہا ۔تھوڑا سمبھل کر آگے بڑھتا گیا ۔ لیکن دماغ میں ڈاکٹر ضیاء الرحمن رحمہ اللہ کی الجامع الکامل ہی گھوم رہی تھی ۔وہ ستارہ جو 1943 میں اعظم گڑھ کی سرزمین پر بتوں کی پرورش کرنے والے ہندو گھرانے میں آنکھ کھولا تھا ۔والدین نے نام بانکے رام رکھا۔ بچے کا والد ایک خوشحال کاروباری شخص تھا۔ اعظم گڑھ سے کلکتہ تک اس کا کاروبار پھیلا ہوا تھا۔ بچہ آسائشوں سے بھرپور زندگی گزارتے ہوئے جوان ہوا۔ وہ شبلی کالج اعظم گڑھ میں زیر تعلیم تھا۔ کتابوں کے مطالعے سے اسے فطری رغبت تھی۔ ایک دن ایک کتاب ”دین حق“ کا ہندی ترجمہ اس کے ہاتھ لگا۔ نہایت ذوق و شوق سے اس کتاب کا مطالعہ کیا۔ بار بار پڑھنے کے بعد اسے اپنے اندر کچھ تبدیلی اور اضطراب محسوس ہوا۔ اس کے بعد اسے قرآن مجید کا ہندی ترجمہ پڑھنے کا موقع ملا۔
نوجوان کا تعلق ایک برہمن ہندو گھرانے سے تھا۔ کٹر ہندو ماحول میں اس کی تربیت ہوئی تھی۔ ہندو مذہب سے اسے خاص لگاؤ تھا۔ باقی مذاہب کو وہ برسر حق نہیں سمجھتا تھا۔ اسلام کا مطالعہ شروع کیا تو قرآن کی یہ آیت اس کی نگاہ سے گزری۔
ترجمہ: اللہ کے نزدیک پسندیدہ دین اسلام ہے۔ اس نے ایک بار پھر ہندو مذہب کو سمجھنے کی کوشش کی۔ اپنے کالج کے لیکچرار جو گیتا اور ویدوں کے ایک بڑے عالم تھے، سے رجوع کیا۔ ان کی باتوں سے مگر اس کا دل مطمئن نہیں ہو سکا۔ شبلی کالج کے ایک استاد ہفتہ وار قرآن کا درس دیا کرتے تھے۔ نوجوان کی جستجو کو دیکھتے ہوئے استاد نے اسے حلقہ درس میں شامل ہونے کی خصوصی اجازت دے دی۔
سقرآن مجید کے مسلسل مطالعہ نے نوجوان کے دل کو قبول اسلام کے لئے قائل اور مائل کر دیا۔
پریشانی مگر یہ تھی کہ مسلمان ہونے کے بعد ہندو خاندان کے ساتھ کس طرح گزارہ ہو سکے گا۔ اپنی بہنوں کے مستقبل کے متعلق بھی وہ فکرمند تھا۔ یہی سوچیں اسلام قبول کرنے کی راہ میں حائل تھیں۔ ایک دن درس قرآن کی کلاس میں استاد نے سورت عنکبوت کی یہ آیت پڑھی۔
ترجمہ: “جن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا کارساز بنا رکھا ہے، ان کی مثال مکڑی کی سی ہے، جو گھر بناتی ہے اور سب سے کمزور گھر مکڑی کا ہوتا ہے۔ کاش لوگ ( اس حقیقت سے ) باخبر ہوتے۔”
اس آیت اور اس کی تشریح نے بانکے رام کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ اس نے تمام سہاروں کو چھوڑ کر صرف اللہ کا سہارا پکڑنے کا فیصلہ کیا اور فوری طور پر اسلام قبول کر لیا۔
اسلام قبول کر نے کے بعد ماں باپ نے سمجھا ان بھوت پریت کا اثر ہو ا ہے مختلف پجاریوں سے علاج کراتے رہے ۔لیکن ایمان کے سامنے ان کی ایک نہ چلی ،ہندو مذہب کی اہمیت سمجھانے لگے ،لیکن ایمان کی طاقت کے سامنے سب ڈھیر ہوگئے ۔ماں باپ نے بھوک ہرتال کیا لیکن ناکام رہے ۔ایک چھپتے چھپاتے گھر سے بھاگ نکلے ۔سیدھے جامعہ دارلسلام عمرآباد تشریف لائے ۔علم دین سیکھنے کی خواہش ظاہر کی ۔داخلہ ملا ۔دن رات محنت کرتے رہے ،اساتذہ سے تھوڑا تھوڑا وقت لیکر پڑھتے رہے ۔کامیابی کی منز ل سے قریب ہوتے گئے ۔
جامعہ دارلسلام میں ممتاز طلبہ میں شمار ہوتے تھے ،فراغت کے بعد جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں داخلہ مل گیا ۔جہاں امتیازی درجوں سے کامیاب ہوتے رہے ۔ایک دن ایسا بھی آیا کہ ایک ہندو گھرانے میں آنکھ کھولنے والا اسلامی دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے پرفیسر بن گئے ۔
ڈاکٹر صاحب نے بیس برس کی محنت اور جانفشانی کے بعد ”الجامع الکامل فی الحدیث ال صحیح الشامل۔“ کی صورت ایک عظیم الشان علمی اور تحقیقی منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچایا ۔ اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں یہ پہلی کتاب ہے جس میں رسول اللہ ﷺ کی تمام صحیح حدیثوں کو مختلف کتب احادیث سے جمع کیا اور ایک کتاب میں یکجا کر دیا گیا ہے۔ الجامع الکامل سولہ ہزار صحیح احادیث پر مشتمل ہے۔ اس کے 6 ہزار ابواب ہیں۔اس کتاب کے لئے روزانہ اٹھارہ گھنٹے کام کرتے تھے ۔رات دیر گئے تحقیق میں سر جھکا ہوا ہوتا ۔سارا گھر لائبریری نظر آتا تھا ۔
ڈاکٹر صاحب کو اس بات کی شکایت تھی کہ مسلمانوں نے ہندوستان میں کم و بیش آٹھ صدیوں تک حکمرانی کی۔ بادشاہوں نے عالیشان عمارات تعمیر کروائیں۔ تاہم غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے اپنے ہم وطن غیر مسلمین کو اسلام کی طرف راغب کرنے کے لئے اشاعت دین کا کام نہیں کیا۔
ہندوؤں کی کتابوں کا فارسی اور سنسکرت میں ترجمہ کروایا۔ مگر قرآن و حدیث کا ہندی ترجمہ نہیں کروایا۔آسمان حدیث کا ایک ستارہ جو مسلسل حدیث نبوی کی خدمت میں آنکھیں کھولتا اور اسی میں آنکھیں بند کرتا ۔دنیا کو حدیث نبوی کا گراں قدر تحفہ دے گیا ۔
30 جولائی 2020 کو اللہ کو پیارے ہوگئے ،انا للہ وانا الیہ راجعون ۔اللہ اس حدیث نبوی کے ستارے سے راضی ہوجائے ، قبر کو جنت کی کیاری میں تبدیل کر دے ۔اہل خانہ کو صبر جمیلہ عطا فرمائے ۔ آپ کی علمی کاوشوں کو صدقہ جاریہ بنا دے ۔