بانجھ عورت سے نکاح کرنا کیسا ہے؟

بانجھ عورت سے نکاح کرنا کیسا ہے؟
عن معقل بن يسار قال : جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : يا رسول الله إني أصبت امرأة ذات حسب وجمال ولكنها لا تلد ، أفأتزوجها ؟ فنهاه ، ثم أتاه الثانية ، فقال مثل ذلك فنهاه ، ثم أتاه الثالثة فقال مثل ذلك ، فقال صلى الله عليه وسلم : تزوجوا الودود الولود فإني مكاثر بكم . رواه أبو داود
حضرت معقل بن یسار سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ کے پاس آیا کہا ایے اللہ کے رسول ایک عورت سے میں نکاح کرنا چاہتا ہوں جو بڑے خاندان کی ہے اور خوبصورت ہے لیکن بانجھ ہے کیا میں نکاح کر لوں تو آپ نے نہیں،دوسرے دن بھی کہا نہیں ،تیسرے دن بھی کہا نہیں ،پھر کہا تم زیادہ محبت کرنے والی اور زیادہ بچے دینے والی عورت سے نکاح کرو،میں کل قیامت کے دن تمام امتوں پر بڑی امت پر فخر کروں گا۔
اس حدیث میں بانجھ عورت سے آپ نے صحابی کو منع فرمایا تو سب کے لئے بالکل منع نہیں ہے بلکہ اس صحابی کے لئے آپ کا مشورہ تھا،ورنہ مطلق منع نہیں ہے بانجھ عورت سے بھی نکاح بالکل کیا جاسکتا ہے ۔اب نبی نے ایک ایسی عورت سے نکاح کرنے کی ترغیب دلائی جس 2 خوبیاں ہوں،زیادہ بچے دینے والی اور زیادہ محبت کرنے والی ۔اب یہ کیسے پتہ چلے کہ کون زیادہ بچے دینے والی ہے ،زیادہ بچے دینے والی کو پہچاننے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے خاندان میں دیکھا جائیگا،اس کی ماں اس کی بہن، خالہ پھوپی ان کو دیکھ کر معلوم کیا جاسکتا ہے،یا اگر شادی شدہ ہوتو معلوم ہوگا۔اب دوسرا مسئلہ یہ ہے زیادہ محبت کرنے والی ہے یہ کیسے پتہ چلےگا؟اس کا جواب یہ ہے کہ جو بھی زیادہ جننے والی ہوگی فطری طور پر زیادہ محبت بھی کرےگی۔اللہ تعالی نے جس عورت میں زیادہ اولاد کی صلاحیت رکھی اس میں زیادہ محبت بھی رکھی ہے ۔
لڑکی کے محبت کرنے کی دوسری علامت لڑکی کی ماں ہے اگروہ اپنے شوہر کی عزت کرتی ہے اس تعریف کرتی ہے اطاعت گزار ہے تو اس بچی میں بھی وہ صفت آجاتی ہے ،اسی باپ اپنی بیوی کی بہت عزت کرتا ہے محبت کرتا ہے احترام کرتا ہے تو بھی بچی میں محبت کی صفت ہوتی ہے، اگر بیوی شوہر کو گالی دے شوہر بیوی کو گالی دے دونوں ایک دوسرے کی شکایت کرتے ہیں دونوں میں محبت نہیں پائی جاتی ہے تو ایسے مان باپ کی بچی میں مشکل ہے، لیکن مکمل ناممکن ہے ایسی بات نہیں ہے لیکن مشکل تو ضرور ہے۔اگر باپ بہت ظلم کرنے والا ہے تو ایسے آدمی کی بچی کے دل میں مردوں سے نفرت ہوتی ہے نفیساتی اعتبار سے ایسی بچی سب مردوں کو ظالم ہی سمجھتی ہے،ایک عجیب طرح کی نفرت کی کیفیت چھائی ہوئی رہتی ہے۔
کچھ مواقعہ پر آپ نے کنواری لڑکی سے نکاح پر ابھارا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ کہ وہ زیادہ مرودں سے واقف نہین ہوتی ہے ،اس کی شوہر سے پہلی محبت ہوتی ہے ،جب ایک مرتبہ محبت ہوجاتی ہے تو پھر زندگی بھر چلتی ہے،مردوں سے ناواقف ہونے کی وجہ زیادہ دھیان اسی پر لگاتی ہے ،چھوٹی چیز پر بھی راضی ہوجاتی ہے،دوسروں سے انس رکھنے کے بجائے اپنے ہی شوہر سے زیادہ انس رکھتی ہے۔ان تمام خوبیوں کی وجہ آپ نے ترغیب دلائی کہ کنواری سے کرنا بہتر ہے لیکن اس کا ہرگز مطلب نہیں شوہر دیدہ مین خوبیاں نہیں ہوتی ہیں،بلکہ بیواہ یا مطلقہ مین بھی بہت ساری خوبیاں ہوتی ہیں۔اگر بیواہ یا مطلقہ دیندار ہے تو اس میں معاملہ فہمی ہوتی ہے،شوہر کن چیزوں سے خوش ہوتا ہے اور کن چیوں سے ناراض ہوتا ہے اس کا علم اس کو پہلے ہی سے رہتا ہے ،اس کو سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے،بہت سارے معاملات جہاں شوہر کو سمجھ میں نہیں آتا وہاں یہ شوہر دیدہ بیوی رہنمائی کرتی ہے،یہ کنواری لرکی کو گھریلو کاموں میں پکوان میں امور خانہ داری میں ایک لمبی تربیت اور صبر کی ضرورت رہتی ہے یہاں ایسا نہین ہوتا ہے بلکہ امور خانہ داری سے مکمل واقف ہوتی ہے۔ایک شوہر عمدہ کھانوں کا شوقین ہوتا ہے جس کو یہ خاتون بخوبی انجام دیتی ہے۔شوہردیدہ سے نکاح کرنا کوئی غلط بات نہیں ہےکیوں کہ نبی کی ساری بیویاں مطلقہ یا بیوہ ہی تھیں سوائے اماں عائشہ صدیقہ کے۔یقینا اولاد دینے والی عورت سے نکاح کی ترغیب دی گئی ہے اگر اللہ نے مقدر میں اوالاد نہیں رکھی ہے تو اس پر صبر بھی کرنا ہوگا۔جیسے ابراہیم اور زکریا علیہھما السام نے صبر کیا،ان دونوں نبیوں کو لمبی مدت تک اولاد نہیں ہوئی انہوں نے نہ ان کو طعنہ دیا نہ ظلم کیا نہ طلاق دیا ۔بلکہ اللہ سے دعا کرتے رہے۔
ایک عربی دیہاتی سے پوچھا گیا کہ کس طرح کی عورت سے نکاح کیا جائے تو اس نے کہا سب سے بہترین عورت ہو ہے قد میں اونچی ہو،جب بیٹھے تو معزز لگے ،جب بات کرے تو سچ بولے ،جب غصہ آئے تو بردباری سے کام لے،یعنی غصہ کا فورا اظہار نہ کرے،جب ہنسے تو مسکرائے ،اگر کوئی چیز پکائے تو لذیذ ومزیدار بنائے،شوہر کی اطاعت کرے،گھر سے باہر انتہائی ضرورت پر ہی نکلے،تکبر سے پاک ہو،زیادہ محبت کرنے والی اور زیادہ بچے دینے والی ہو۔
حدیث سے فوائد :وجوب نکاح،اگر ولود ودود ہے لیکن دین نہیں ہے تو نہین،کیونکہ دین کے بغیر ودود نہیں ہوسکتی،ودود زیادہ ہو تو زندگی مین سکون ہوگا،ومن آیاتی ان خلق لکم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لتسکنوا الیھا۔
نبی فخر کریں گے ،اولاد زیادہ ہوگی تو زیادہ کام ہوگا،بنی اسرائیل کی تعریف زیادہ اولاد کی ہے وجعلناکم اکثر نفیرا ،ازکروا اذ کنتم قلیلا فکثرکم ۔