دوستو ماں ایک  ایسی ہستی ہے  جب تک وہ ہمارے درمیان رہتی ہے ،ہمارے ساتھ رہتی ہے اس کی قدر نہیں کی جاتی ،نہ اس کی اہمیت سمجھ میں آتی ہے،نہ ہی اس کی  ممتا سمجھ میں آتی ہے،لیکن  ماں جب ہم سے جدا ہوتی ہے تو بیتے ہوئے سارے لمحے یاد آتے ہیں۔

 ایک ماں جب ہسپتال میں شریک کر دی جاتی ہے،دھیرے دھیرے  اس کے ہوش و ہواس کم ہوتے جاتے ہیں،پھر وہ ہمیں پہچان نہیں پاتی ،ہم اس کے بیڈ کے پاس بالکل بے بس کھڑے رہتے ہیں ہماری آنکھیں بھر جاتی  ہیں،اس کی محبت یاد آتی ہے،ہماری کامیابی  پر کس قدر خوش ہوا کرتی تھی،ہماری خاطر کیسے تکلیف اٹھایا کرتی تھی، بستر مرگ پر لیٹی ہوئی ماں کو دیکھتے ہوئے زندگی کے سارے لمحے یاد آتے ہیں،اپنا بچپنہ بھی یاد آتا ہے،خوش حالی کے  دن بھی یاد آتے ہیں تنگ دستی کے دن بھی یاد آتے ہیں،اسی دوران ماں کی آخری سانس بھی بند ہوجاتی ہے،ایک وہ ماں جس نے زندگی بھر اپنے بچوں کی خاطر گہری نیند سو نہیں پاتی تھی ،لیکن اب وہ بہت گہری نیند سوتی  ہوئی نظر آتی ہے،جسے زندگی کیے تلخ تجربات نے  مغموم بنایا تھا آج  اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ محسوس ہوتی ہے،اب انسان کو سمجھ میں آتا ہے کہ ماں کیا تھی؟اس نے ہمارے لئے کیا کیا تھا،جب وہ تھی تو ہمیں کسی قسم کی فکر نہیں تھی،اب وہ جارہی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ کتنی اہم تھی،جب وہ تھی تو گھر آباد تھا،جب وہ تھی تو سارے بھائی بہن مختلف موقعہ پر جمع ہوتے تھے  ،جب وہ تھی تو ہم اس سے مشورے لیتے تھے لیکن اب کس سے مشورے لیں؟اب کون  ہمیں  مخلص دعائیں دےگا اب کس کی دعا ماں کی دعا کے برابر ہوگی ؟اب کس کی محبت ماں کی محبت کے برابر ہوگی؟اب کس کی فکر ماں کی فکر کے برابر ہوگی؟اب کس کی اپنائیت ماں کی اپنائیت کے برابر ہوگی؟اب کس کی ہمدردی ماں کی ہمدردی کی طرح ہوگی؟اور یہ باتیں اسی کی سمجھ میں آتی ہیں  جس کی  ماں کا سایہ اس  کے سر سے اٹھ جاتا اور اس تکلیف  کو صرف وہی سمجھ سکتا ہے جس نے اپنی  ماں کو  کندھا دیا ہو اور قبر میں اتر کر اس کی آخری آرامگاہ میں لٹایاہو،  وہ کیسی ہستی ہے کہ اس کےمعمولی ذکر  سے بھی  انسان کے

دل اور دماغ کو سکون ملتا ہے۔

جس کا ذکر لبوں پر آتے ہی خوشی چھا جاتی ہے۔

جسے جنت کی کنجی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

جس نے انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا۔ ماں…. جسے کوئی ”اَمی“ کہہ کر پکارتا ہے تو کوئی” اَمّا“ کہہ کر۔ ماں کے انیک نام صحیح، لیکن ماں ماں ہے، اسے کسی بھی نام سے پکارو، دلی سکون ملتا ہے۔ گویا ماں ہماری رگ رگ میں ہے، کیوں نہ ہو، مشکلات اور تکالیف برداشت کرکے اس نے ہمیں اپنی پیٹ میں پالاہے۔ پیدا ہوئے تو یہی ماں شفقت کا جیتاجاگتا نمونہ بن کر ہمیں پالنے لگی، رات رات بھر جاگی، تاکہ بچہ سویا رہے۔ بے شمار تکلیفوں کا سامنا کیا، تاکہ بچہ خوش رہے۔ غرض ماں پیار ہے، اس میں نفرت کی کوئی گنجائش نہیں جب دیکھو تو پیارہی جھلکتا ہے۔ جب کبھی کسی بات پر ناراض ہوتی ہے، تو اس ناراضگی میں بھی دور سے پیار ہی دکھائی دیتا ہے۔ دراصل ما ں کا دوسرا نام ہی پیار ہے۔ یہ پیار اگر ماں میں نہ ہوتا تو بچہ بچہ نہ رہتا ۔ رونے کی ایک آہستہ آواز سے ماں جاگ اُٹھتی ہے، یہ پیا ر نہیں تو اور کیا ہے؟ سوتا ہوا بچہ جب پیشاب کرتا ہے تو یہی ماں اسے دوسری طرف پھیر کرسُلادیتی ہے اور جب اُس طرف بھی بچہ پیشاب کرتا ہے تو خود اپنی جگہ سے ہٹ کر وہا ں بچے کو سلادیتی ہے اور خود پیشاب پر سوجاتی ہے، اسے پیار نہیں تو اور کیا کہیں گے؟ بھوک کے اظہار سے پہلے ہی  میٹھا میٹھا دودھ پلادیتی ہے،یہ دودھ نہیں دراصل ماں کا پیار ہوتا ہے،جسے وہ اپنے بچے کو دے دے کر پیغام ِمحبت کا اظہار کرتی ہے۔

ماں….جسے اپنی زندگی سے زیادہ بچے کی خوشی مقدم رہتی ہے۔ ہر وقت بچے کو خوش دیکھنا چاہتی ہے۔ جب کبھی بچہ بیمار ہوجائے،تو بچے کی رونے کی آواز کانوں میں پڑتے ہی آنکھوں سے آنسوﺅں کے قطرے ٹپک پڑتے ہیں۔

ماں….درد اور اذیتیں برداشت کرنے والی ماں۔ لیکن ….! اسی ماں کا یہ بچہ جب بڑا ہوتا ہے، تو یہی ماں جو کل تک اس کاسہارا تھی، آج خود ہی سہارے کی طلب گاربن جاتی ہے۔ بڑا ہوکر جب یہی بچہ ماں کو ٹھکرا کر کہیں اور چلا جاتا ہے، اس وقت بھی یہی ماں اس کی مدد کے بالمقابل اس کا دور سے سہارا بن کر دعائیں دیتی ہے سب کچھ برداشت کرلیتی ہے، لیکن اس بچے کا جو جوان ہوچکا ہو،جو اسے چھوڑ کر کہیں اور جابسا ہے، اسے بد دعا نہیں کرتی۔ اس و قت بھی اس کی زبان سے بار بار پیا رہی جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔ مرتے وقت بھی اسی بچے کو یا د کرتی ہے۔اسی کے سامنے اپنی جان دیتی ہے۔کتنے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو ماںکا پیا ر پالیتے ہیں، ماں کی دعائیں لیتے ہیں، اور کتنے بد قسمت ہیں وہ لوگ جو ماں ہوتے ہوئے بھی کہیں اور سے پیار کی تلاش میں نکلتے ہیں ۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے۔

اے دوست! ماں باپ کے سایے کی ناقدری نہ کر

دھوپ کاٹے گی بہت جب یہ شجر کٹ جائے گا

ہم دعا گو ہیں کہ باری تعالی جن کی مائیں زندہ ہیں انہیں ان کی قدر جاننے اور بھرپور خدمت کرنے کی توفیق دے اور جن کی گزر چکی ہیں ان کے حق میں روزانہ صدقہ جاریہ کرنے اور ان کے حق دعائے خیر کرنے توفیق عطا فرما۔

How useful was this post?

Click on a star to rate it!

Average rating 4.2 / 5. Vote count: 29

No votes so far! Be the first to rate this post.

9 thoughts on “اگر ماں یاد آئے تو ضرور پڑھنا

  1. Bahot achi lagi ye post mere aansu aa gaye is ma ki jagah khud ko rakh kar dekha to pata chala ki me bhi shayad esi hi hu apne bachho ke sath ese hi karti hu unhe jara taklif me nahi dekh sakti hamesha unhe khush or tandrust dekhna chahti hu isse mujhe khushi milti he unke rat ko jagti hu taki wo so jaye or apni ammi ki bhi qadar bahot jyada malom hui wo mere liye bahot khas he unhone hamesha mere bare me socha wo bahot achi he allah unhe hamesha khush or tandrust rakhe aameen

  2. ماشاء اللہ بہت خوب…. اللہ کرے زور قلم اور زیادہ

  3. Asalaamualaikum bhut hi zabardast malum ati posts hai apke islah ke liye waldein ki
    Tabhi to bacho ki sahi tarbiyat hogi
    Allahswt jazae khair ata krey ameen

Leave a Reply