امریکی  فسادات کی اصل وجہ

پوری دنیا میں  تین رنگوں کے لوگ ملیں گے ۔گورے ،کالے،گندمی یا براون  ۔گورے امریکن ہوتے ہیں ،کالے افریقی ہوتے ہیں اور گندمی رنگ والے یعنی ہم ایشیاء کے لوگ ہوتے ہیں۔اس وقت امریکہ میں   جو گڑ بڑ نظر آرہی ہے اس کے پیچھے ایک لمبی تاریخ ہے ۔ سیاہ فام   لوگ جو آج ہر طرف ہنگامہ برپا کئے ہوئے ہیں   ان کا ماضی بڑا دردناک رہا ہے ۔

تاریخ یہ بتاتی ہے کہ یوروپ ایک سرسبز وشاداب ملک تھا ،جس کو مزید ترقی دینے کے لئے وزنی کام کرنے کے لئے ، افرادی قوت کی تلاش تھی ۔یوروپ نے افریقہ پر جب حملہ کیا تو دیکھا یہاں کے لوگ بڑے طاقتور ہوتے ہیں، کھیتی باڑی اور وزنی کام بڑی آسانی سے انجام دے سکتے ہیں تو انہوں نے  افریقہ کے لوگوں کو غلام بنا کر یوروپ لانا شروع کیا ۔ چنانچہ آفریقہ سے 1650 تا 1860 تک لگ بھگ 10 ملین سے 15 ملین  لوگوں کو غلام بنا کر لایا گیا ۔یہ امریکن  آفریقہ  کے قبائل پر حملہ کرتے اور غلام بنا کر لایا جاتا تھا ۔جب ان لایا جاتا تو انتہائی بے رحمی کے ساتھ کام لیا جاتا تھا ۔اگر تھوڑا  بھی مزاحمت کرتے  سیدھا جان سے ہاتھ دھونا پڑتا ۔ان آفریقی غلاموں کی کوئی حیثیت نہین ہوا کرتی تھی ۔امریکہ  کی زراعت کے لئے لایا گیا ۔بیچا گیا ۔

،کام میں کچھ کمی ہوتی تو مار دیا جاتا تھا ۔ اس طرح رفتہ رفتہ پورا افریقہ  غلامی میں ڈوب  گیا ۔آفریقہ  میں   امید ہی  ختم ہوچکی تھی ۔

یوروپ میں جیسے جیسے زمانہ ترقی کرتا گیا انسانیت جاگتی گئی اس غلامی کی مخالفت شروع ہوئی ۔ غلامی کی  کھل کر مخالفت کرنے والے ابراہم لنکن  تھے ۔انہوں نے مکمل ختم  کرنے کی کوشش کی ۔لیکن مکمل  ختم نہیں کر سکے ۔یوروپ اور امریکہ میں افریقی  لوگوں کی آبادی بڑھتے  گئی ،تعلیم میں آگے بڑھتے گئے ۔امریکہ  میں ان کی شہریت تسلیم کی گئی ۔لیکن  گوروں کے ذہنوں میں یہ برابر تھا  کہ یہ غلام ہیں،ان کو برابر کے  حقوق نہیں دئے جاسکتے ۔گوروں نے ان کو اپنے  معاشرہ میں مکمل ضم نہیں کیا ،ان کی تعلیم ،ان کی تربیت ،ان کی سوچ ،ان کی فکر کو بلند کرنے کی یا پنپنے کا  موقعہ کھلے دل سے نہیں دیا ۔جس کی وجہ سے  یہ اکثر چھوٹے موٹے کام کرتے ہوئے زندگی بسر کرنے لگے ۔جب ان کے ساتھ ہر معاملہ میں توہین آمیز سلوک کیا جاتا تو  بد دل ہوکر  جرائم کر بیٹھتے ۔جب ایک جرم ہوتا تو اس کی بڑی بڑی سزائیں ملتی تھیں۔جب چھوٹے جرم کی سزا بڑی بڑی  ملنے لگ جائے تو  انسان سزا سے سدھرنے کے بجائے بگڑنے لگتا ہے ،اندر ہی اندر انتقامی جذبہ پلنا شروع ہوجاتا ہے ۔جب بھی موقعہ ملے جرم کر بیٹھتا ہے ،پھر اس جرم کی سزا بھیانک ہوتی ہے ۔اس جرم کی سزا کے آڑ میں   بےگناہ لوگوں کو بھی شک کی بنیاد پر سزائیں  دی   جاتی ہیں تو یہ غصہ ختم نہیں ہوتا بلکہ بڑھتا جاتا ہے ۔دل سخت ہوتے جاتے ہیں ۔ہر طرف مایوسی نظر آتی ہے ۔انسان جب مایوس ہوجاتا ہے تو بے قابو ہوجاتا ہے ۔

حالیہ دنوں میں   ہم نے دیکھا کہ ایک سیاہ فام   جارج فلائیڈ نے لاک ڈاون اور بے روزگاری  سے تنگ آکر ایک  20 ڈالر کا نقلی نوٹ کا استعمال کیا ،دکان والے نے پولس کو فون کیا ،لمحہ بھر میں پولس نے دبوچ لیا ،ہاتھ پاوں باندھ دیا ۔اب پولس والے کی ذمہ داری تھی  کہ اس کو قانون کے حوالے کرتا ۔لیکن   اس نے انتقامی جذبہ سے ا س کی گردن پر گھٹنہ لگ بھگ 8 منٹ تک رکھا ،اس دوران  سیاہ فام آدمی چیختا رہا ،چلاتا رہا ،سانس نہ ملنے کی شکایت بھی کرتا رہا ۔آس پاس کے لوگوں نے اس کو چھوڑ دینے کی اپیل بھی کی ،لیکن اس اپیل کا اس پر  کوئی ثر نہ ہوا ،نتیجہ میں موقعہ واردات پر ہی اس کی موت ہوگئی ۔اس پورے واقعہ کی فلم بندی ہوئی ۔ساری دنیا نے دیکھ لیا  کہ ایک معمولی جرم  پر پولس نے  بڑی بے رحمی سے سب کے سامنے  سڑک پر جان  لی ۔اب  سیاہ فام امریکیوں کا صبر کا پیمانہ چھلک گیا ۔دیکھتے ہی دیکھتے پورے یوروپ میں فسادات شروع ہوگئے ۔

ایسا نہیں ہے کہ سارے  گورے  نا انصاف ہی ہوتے ہیں ،ایسا  بھی نہیں کہ  سارے گورے  دودھ کے دھلے ہوئے ہیں ،ہر سماج میں  اچھے برے لوگ ہوتے ہیں۔آج کا یہ غصہ  صرف ایک موت کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ  ان کے ساتھ ہونے والے  ظلم وجبر ،ناانصافی ،نسلی تعصب  کی ایک لمبی تاریخ کی  وجہ سے ہے ۔اس موقعہ پر  اسلامی تعلیمات ہی   ان کے درد کا صحیح علاج ہے ۔آج سے 14 سو سال پہلے پیارے  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں فرمایا تھا ۔

یأیها الناس إن ربکم واحد وأباکم واحد ألا لا فضل لعربي على عجمي ولا لعجمي على عربي ولا أسود على أحمر ولا أحمر على أسود إلا بالتقوی” (مجمع الزوائد، مسنداحمد:)

’’لوگو! بے شک تمہارا ربّ ایک ہے اور بے شک تمہارا باپ ایک ہے،  ایک  عربی کو نہ  عجمی پر، نہ ایک  عجمی کو عربی پر، نہ سرخ کو سیاہ پر اور نہ  سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت ہے   مگر تقویٰ کے سبب ۔

اسلام نے اونچ نیچ کو 14 سو سال پہلے ہی ختم کردیا ہے ۔نہ رنگ کی بنیاد پر کوئی اونچا ہوسکتا ہے نہ  ملک کی وجہ سے کوئی اونچا یا نیچا ہوسکتا ہے ۔بس جو جتنا  اچھے اخلاق وکردار کا حامل ہوگا وہی بڑا ہوگا ۔نبی کا یہ فرمان دنیا  بھر کے  مظلوموں کے لئے سہارا ہے ۔اسلام ایک ایسا مذہب ہے  جو سب کو برابر کا ردجہ دیتا ہے ۔آفریقہ سے آئے ہوئے بلال کو بھی  سب سے برا مقام عطا کرتا ہے ۔وہ بلال جو غلام بنا کر لائے گئے تھے لیکن اپنے ایمان  وتقوی کی وجہ سے نبی  کے لاڈلے بن گئے ،صحابہ کے لاڈلے بن گئے ۔نبی کے موذن بن گئے ۔نبی  کے قریبی بن گئے ۔

پیارے نبی کی تعلیمات نے  دلوں کو جیت لیا ،وہی عمر جو تلوار لے کر نبی کی گردن کاٹنا چاہتے تھے ،وہ ایمان والے بن گئے ،وہ حبشی جو حضرت حمزہ  کو شہید کیا تھا ،کلیجہ باہر نکالا تھا ،آخر کا رایمان لاتا ہے ۔وہی ابو سفیان جو نبی  کے تایا کا بیٹا تھا ،مسلسل نبی کی برائی بیان کرتا تھا ،جنگ حنین میں نبی  کے ساتھ تھا ۔وہ ابوسفیان بن حرب جو 7 سال تک مسلسل نبی سے جنگیں کرتا رہا لیکن آخر کار ایمان سے سرفراز ہوجاتا ہے ۔وہ طفیل بن عمرو دوسی جو مکہ میں کانوں میں روئی رکھ کر طواف کرتا تھا کہیں محمد کی آواز کانوں میں نہ پڑھ جائے لیکن آخرکار وہ بھی ایمان سے سرفراز ہوگئے ۔وہ عبد یالیل جس  نے طائف میں نبی پر پتھر برسانے لگایا تھا مدینہ میں نبی پر ایمان لاتا ہے ۔کاش آج بھی دنیا اسلام کو سمجھے تو اسی طرح دنیا اس کے قدموں تلے آسکتی ہے ۔امریکہ  کے اس  نسلی تعصب کا حل اسلامی تعلیمات میں  ہے۔اب  ہماری ذمہ داری ہے کہ اسلام کی   مساوات کی تعلیمات کو عام کریں ۔تاکہ دنیا جان لے اور قریب ہوجائے ۔

How useful was this post?

Click on a star to rate it!

Average rating 5 / 5. Vote count: 1

No votes so far! Be the first to rate this post.

2 thoughts on “امریکی سیاہ فام لوگوں کو غصہ کیوں آتا ہے

  1. The above mentioned message is very much appreciated truth…
    However we have to stand and preach it…. Without any time bound… Every one is the creation of the Almighty Allah…..

Leave a Reply