اسکولی بچوں میں سگریٹ نوشی پھیل رہی ہے

اسکولی بچوں میں سگریٹ نوشی عام ہورہی ہے
اسکول ایک ایسا مقام ہے جہاں بچے بنتے بھی ہیں بگڑتے بھی ہیں،جن کی زندگی خوشگوار بھی بن سکتی ہے بگڑ بھی سکتی ہے،کیوں کہ بچہ جب گھر میں ہوتا ہے اپنے گلی کوچوں میں رہتا ہے محدود بچوں سے پالا پڑتا ہے ،لیکن اسکول مین سینکڑوں بچوں سے پالا پڑتا ہے،جن میں اچھے بیاک گراونڈ کے اچھے بچے بھی ہوتے ہیں ،برے بیاک گراونڈ کے برے بچے بھی ہوتے ہیں،ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ ہمارا اچھا بن کر گھر کولوٹے وہ برا بھی ہوتو بد ل کر لوٹے۔اگر ایسے موقعہ ہر اسکول میں تربیتی نقطہ نظر سے سوچنے والے پرنسپل یا استاذ نہ ہوتو وہ صرف اپنا سلیبس کمپلیٹ کرتے ہوئے امتحانات پاس کرتے جائیں گے ،لیکن ان کی بری عادتیں ختم نہیں ہوں گی بلکہ ایک کی عادت دوسروں میں منتقل ہوتی جائیں گی۔اگر کسی بچہ میں کوئی بری عادت ہے تو وہ اکیلا اس کو انجام نہیں دے گا بلکہ اس میں اپنے دوستوں کو بھی شامل کر لےگا ، ،حالانکہ جنرل اسٹڈی یہ ہے سگریٹ نوشی کی عادت 14 سال سے 22 سال کی عمر کے درمیان شروع ہوتی ہے۔لیکن حالات کتنی تیزی کے ساتھ بدل رہے اندازہ بھی مشکل ہے۔یہ بات ذہن میں رکھیں جتنے بچے سگریٹ نوشی کرتے ہیں سارے بچے اپنے گھر سے سیکھ کر نہیں آتے ،ان میں سے کوئی ایک بچہ ہے جو سب کو عادت ڈالا ہے۔
یہ بد بو دار عادت اکثر فلموں کی دین ہے،جہاں ہیرو اپنی شان کو ظاہر کرنے کے لئے سگریٹ نوشی کرتے ہوئے نظر آتا ہے،آج کل کے بچے اپنے آپ کو بالغ بتانے کے لئے ،سگریٹ نوشی کر رہے ہیں ،جس طرح لڑکے اپنے آپ کو mature اور بالغ بتانے کے لئے سگریٹ نوشی کا سہارا لے رہے ہیں اسی طرح لڑکیاں بھی سگریٹ نوشی کر کے mature ثابت کرنا چاہ رہی ہیں, سگریٹ سے ان کو حقیقت میں دیکھا جائے کوئی مزہ نہیں آتا لیکن پھر بھی شوق کا اظہار کرتے ہیں ۔
بچوں کو سگریٹ نوشی کرنے کی جرائت کیسے پیدا ہوتی ہیں۔
1 بچوں کے والد سگریٹ نوشی کرتے ہیں، یا ان کے دادا ،یا ان کے بھائی ،یا ان کے خاندان میں سے کوئی سگریٹ کرتا ہوگا،
2 پڑوس میں سے کوئی سگریٹ نوشی کرتا ہوگا ۔
3 خاندان میں سے کوئی بھی سگریٹ خریدنے کے لئے بھیجتا ہوگا ۔
4 گھر کے پاس کوئی چائے کی دکان ہوگی یا پان کا ڈبہ ہوگا جہاں لوگ مسلسل سگریٹ نوشی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
5 فلموں میں ہیرو کو دیکھ کر خود کو بھی ہیرو ثابت کرنے کے لئے عادت پڑ جاتی ہے۔
یہ ایسی عمر ہے جس میں بچے کچھ بھی سیکھ سکتے ہیں ،یہ آج سگریٹ پی رہے ہیں کل گھٹکا بھی شروع کر سکتے ہیں ،پرسوں وائٹنر سے نشہ بھی کر سکتے ہیں ، اس کچی عمر میں دیکھا دیکھی کچھ بھی شروع کر سکتے ہیں ،اس لئے اسکولوں میں مسلسل اسلامی اخلاقی تربیت جاری رہے ،ماں باپ بھی نظر رکھیں ،ان کے دوستوں کا جائزہ لیتے رہیں،بچے کسی کے بھی رہیں چاہے مسلم ہوں یا غیر مسلم ہوں مسلم اسکول میں پڑھتے ہوں یا غیر مسلم اسکولوں میں پڑھتے ہوں ان کے ماں باپ اس عمر میں سگریٹ نوشی کو قبول نہیں کر سکتے ۔اسلامک اسکولوں میں اخلاقی تربیت کی جاتی ہے،جس کی وجہ سے بچوں میں آسانی سے گندی عادتیں نہیں آتیں ۔جن اسکولوں میں دینیات کاsubject نہیں ہوتا ،یا subjectتو ہے لیکن وہ صرف مسلم ماں باپ کو ترغیب دلانے کے لئے ہے ،اخلاق وتربیت اصل مقصد نہ تو بھی بد اخلاقی کو روکا نہیں جاسکتا ۔اور ایسے اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے مستقبل کے بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا ۔ہم ہر طلبہ وطالبات کے سرپرستوں سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں پر گہرری نظر رکھیں۔ان کی کوئی بھی بری عادت کو چھوٹی نہ سمجھیں ،وقتی بھی نہ سمجھیں ،یعنی یہ نہ کہیں ابھی چھوٹا ہے جب بڑا ہوگا تو سمجھ جائیگا ،نہیں ۔بچپن میں اگر برائی پیدا ہوجائے تو اس کے اصلاح کی امید مشکل ہے۔