اسلام اور عیسائیت میں فرق

نورالدین عمری ،یم اے،یم فل

تبدیل شدہ عیسائیت میں شریعتِ الہٰی کا اب کوئی وجود نہیں ہے۔ کچھ عرصہ تک عیسائیت کے پیرو کارحضرت موسی کی  شریعت کو اپنائے رہے پھر مختلف ممالک میں لوگوں نے اپنی اپنی عقل کے مطابق قانون بنایا ۔ جب اسلامی قانون کا چرچا ہوا تو عیسائی ممالک نے اس کے بنیادی اصولوں کو راہِ ہدائت بنا کر اپنے اپنے قوانین مرتب کر لئے اس کے بر خلاف  اسلام کے پاس ایک  بےمثال اور جامع قانون شروع سے موجود ہے جو  رب کی طرف سےمیں نازل  کردہ ہے۔
۔ اسلام نے روحانیت اور مادیت کو اپنا جائز مقام دیانہ صرف روحانیت اور نہ صرف مادیت ہےبلکہ دونوں کا حسین امتزاج ہے ۔اس کے بجائے  عیسائیت کے پاس روحانی عقیدوں کے سوا کوئی نظامِ حیات کا لائحہ عمل نہ تھا اسلام نے ایک مکمل اور مفصل  نظامِ حیات ایک مضبوط لائحہ عمل پیش کیا۔
عیسائیت  چند آدمیوں کے لئے کماحقہ ممکن ا لعمل تو تھی لیکن اکثریت ترک دنیا  کا فارمولہ اپنا نہ سکی جس کے سبب اس مذہب پر عمل پیرا ہونے سے قاصر تھی۔ اسلام نے ایک ایسا مذہب پیش کیا جو ہر  آدمی  کے لئے  قابل عمل تھا اور جس میں ہر آدمی  جوابدہ ٹھہرا۔
عیسائیت رہبانیت پر مبنی تھی۔ اسلام نے رہبانیت  کو مکمل غلط قرار دے کر ایک ایسے معاشرہ کی تشکیل کی جس کے اندر رہ کر انسان  اللہ کے حقوق  اور  بندوں کے حقوق  کی ادائیگی میں مصروف رہتا ہے۔اسلام نے ترکِ دنیا کی نہیں بلکہ دنیا میں رہ کر حقوق کی ادائیگی کی تعلیم دے کر ایک با عمل اور ایک مفید معاشرہ پیدا کیا ۔عیسائیت میں مذہب کی حکومت یعنی چرچ کی حکومت پادریوں کے ہاتھ میں  تھی اور دنیاوی حکومت بادشاہ کے سپرد تھی۔ وہ بیک وقت  دو حاکموں کے محکوم تھے ۔
خود پادریوں اور بادشاہوں میں سرد جنگ رہتی تھی اسلام نے اس کے بر خلاف  خلافت قائم کی۔ خلیفہ  نبی کا نائب قرار پایا۔ مذہب اور سیاست دونوں ایک ہی شخصیت میں اکٹھی کر دی گئیں۔ انسان کی تاریخ میں یہ ایک معرکہ آراء اور انقلاب آفریں تجربہ تھا مگر پادریوں نے اسلام کو اس کے لئے کبھی معاف نہیں کیا کیونکہ اس سے خود اُ ن کا وجود خطرے میں پڑ گیا ۔عیسائیوں نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کو خدا کا بیٹا کہا ۔مگر اسلام نے اللہ کے بندے اور رسول کہا۔
عیسائیوں نے کہا کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام  کو صلیب پرچڑھایا گیا۔ اسلام نے کہا ۔’’ نہیں  یہ  غلط ہے ،۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر موت نہیں ہوئی بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے آسمان پر اُ ٹھا لیا‘‘۔
عیسائیوں نے کہا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب پر مر کر آدم کے گناہ کا کفارہ ادا کر گئے۔ اسلام نے کہا کہ کوئی بھی شخص کسی دوسرے کے گناہ کا کفارہ نہیں دے سکتا۔
عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام، حضرت مریم علیہ السلام ،حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں اور بے شمار دوسرے مسیحوں، درویشوں اور راہبوں کے بت اور تصاویر بنا کر کھلم کھلا اُ ن کی پرستش کی۔ اسلام اس کے بر عکس بت تو بت تصویر کے خاکے کو بھی برداشت نہیں کرتا۔

اسلام توحیدِ کلی کا سب سے بڑا علم بردار اور شرک و بت پرستی کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ عیسائیت کلیتہ ً روحانی اقدار پر مبنی اور مادی ضروریات و اقدار کی منکر ہونے کے سبب آخر کار ناقابلِ عمل اور ناقابلِ قبول ہوئی ۔اسلام نے اس افراط و تفریط سے اجتناب کر کے اور انسان کی روحانی اور مادی دونوں طرح کی ضروریات کا پاس کر کے اِ ن دونوں میں کچھ ایسی حکیمانہ آمیزش کر دی کہ رضی اللہ عنہم و رَ ضُو عنہُ کا سماں پیدا ہو گیا اور تمام روحانی اور مادی تشنگی دور ہو کر اطمینانِ قلبی اور سکونِ روحانی کے اسباب پیدا ہو گئے۔
عیسائی تثلیث کے قائل تھے۔ اسلام اس کے بر عکس توحید  کا قائل ہے .عیسائیت میں شادی کا بندھن  ،ابدی ہے ،اٹل ہے اگر نبھ سکے تو قابل  تعریف  لیکن نہ نبھے تو ایک  عذاب ہے۔ اسلام بھی شادی کے بندھن کی سخت تلقین کرتا ہے اور  طلاق کو سخت ناپسندیدہ نگاہوں سے دیکھتا ہے لیکن اگر نبھا نا طاقت سے باہر ہو اور وجوہات معقول ہوں تو  طلاق  کی اجازت بھی  دیتا ہے اگرچہ  کہ اس اجازت میں بھی  طوالت کی اتنی کڑیاں ہیں کہ انسان سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور دانستہ طور پر سوچنے کا موقع اتنا دیا جاتا ہے تاکہ وہ کسی وقت بھی اپنے اس ارادے سے باز رہ سکے ۔ عیسائیت کا حقِ طلاق سے کلی انکار بعض بڑی خرابیوں کا موجب بن جاتا ہے۔ اگر میاں بیوی کے درمیان  محبت  نہ ہو سکی  بلکہ  آپس میں نفرت  پیدا  ہو تو  جدائی  کے تمام راستے  بند  ہونے کے سبب  دونوں  ادھر اُ دھر کا رخ کرتے ہیں۔اس طرح سے ایک گھر ہی تباہ نہیں ہوتا بلکہ آوارگی اور فخاشی کو  ترقی ملتی ہے۔ وہ بد نصیب جنہیں صحیح جوڑا نہیں ملتا اُ ن کی حالت  بہت بری  ہوتی ہے۔بیزاری  اُداسی اُن کے نصیب میں ہوتی ہے ۔ دل افسردہ اور روح پژمردہ آنکھیں ویران دنیا حیران ویران ہوجاتی ہے۔ اسلام کی حقانیت  کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ اقوامِ عالم نے جن میں عیسائی قومیں بھی شامل ہیں۔ ہزاروں برسوں کے انکار کے بعد آخر کار مجبور ہو کر اسلام کے نقشِ قدم پر چل کر طلاق کے حق کو تسلیم کر لیا ہے۔عورت بحیثیت ماں، بہن، بیوی نانی، پھوپی، دادی غرضیکہ ہر کیٹاگری کی وراثت میں شریک ہے۔ عیسائیت میں عورت کو ازدواجی زندگی میں ازروئے قانون کوئی تحفظ نہیں اس کے برعکس اسلام میں ہر لحاظ سے عورت کی ازدواجی زندگی کا قانونی تحفظ موجود ہے۔ اس کاحق مہر مقرر ہوتا ہے۔ نان و نفقہ کی مستحق ہوتی ہے وراثت میں دعویٰ دار ہے۔

How useful was this post?

Click on a star to rate it!

Average rating 0 / 5. Vote count: 0

No votes so far! Be the first to rate this post.

Leave a Reply